یہی تو رازِ اُلفت ہے❤️
ہماری محبّت کو سنبھال کر رکھنا
ایک ہی بار ملےگی زِندگی کی طرح
لکھنؤشہر کا موسم سہانا تھا۔ نہ گرمی زیادہ تھی نہ ٹھنڈ۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ یہ کہا جائے رمضان جیسے پاک اور با برکت مہینے کا اثر تھا جو مئی جیسے مہینے میں پڑا تھا پھر بھی گرمی محسوس نہیں ہوئی تو غلط نہ ہوگا ہوتی بھی کیوں؟؟؟ آخر کو رمضان جیسا رحمتوں کا مہینہ جو تھا۔ اور آج انتیسواں روزہ تھا عین ممکن تھا کہ کل عید ہو جائے۔
اُسے پڑوس کے چنکی سے باتیں کرکے خیال آیا کہ اُس کی تو ابھی آدھی عید کی تیاری نامکمّل ہے۔وہ بھی اُسے یاد نہ آتا اگر چنکی اپنی تیاری کے متعلق نہیں بتاتی ۔ وہ دوڈتی ہوئی اصفیا کے کمرے میں اُسے مارکیٹ ساتھ چلنے کے لیے منانے گئی۔لیکن اصفیا نے جانے سے اِنکار کردیا تھا۔ تو وہ رونی صورت بناکر آسیہ بیگم کے پاس اُس کی شکایت لے کر آئی۔
"امّی۔۔۔امّی, دیکھیے نہ آپا میرے ساتھ مارکیٹ نہیں چل رہی ہے مُجھے عید کی شاپنگ کرنی ہے" وہ رونی صورت بناکر آسیہ بیگم سے اصفیا کی شکایت کرنے لگی۔
"کیوں جائے میری بچّی مارکیٹ کی بھیڑ میں خوار ہونے وہ بھی روزہ رکھ کر" آسیہ بیگم نے اصفیا کی فکر میں کہا۔
"امّی۔۔۔ آپا پھر اُداس تھی آج اِس لئے کہا کہ اُنھیں باہر گھوما لاؤں اُن کا موڈ تازہ ہوجاۓ گا، اور میری شاپنگ بھی عید کی"اُسے اصفیا کی فکر تھی۔
"ٹھیک ہے لیکِن افطار بعد جانا، ابھی جا کے افطار کی تیاری دیکھو"اُنہونے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
اُنہیں معلوم تھا کہ تبسّم اصفیا کے معاملے میں بہت حساس ہے اِس لئے اُنہونے مارکیٹ نہ جانے سے اختلاف نہیں کیا۔ آسیہ بیگم ،اصفیا کے حوالے سے تبسّم کی کوئی بات سے نہ،نہیں کرتی۔دونوں بہنوں کی محبّت دیکھ کر تو وہ نہال ہوجاتی۔دونوں بہنوں میں دو سال کا فرق تھا۔
حنان غالب کا نکاح اُن کی چچازاد آسیہ سے ہوا تھا۔دونوں میں بہت محبّت تھی۔ اللّٰہ نے اُنہیں دودو رحمت سے نوازا تھا۔ اسفیا اور تبسّم۔ تبسّم کے پیدائش کے دو سال بعد حنان غالب ایک کار اکسیڈنٹ میں حقیقی خالق سے جاملے۔آسیہ بیگم نے ہمّت نہیں ہاری بلکہ اسکول میں پڑھا کر اور پڑوس کے بچّوں کو ٹیوشنز دے کر اپنی دونوں بچّیوں کی پرورش بہت بہتر طریقے سے کیں دونوں بہنوں میں بہت محبّت تھی۔ اسفیا اور تبسّم جان تھی دونوں اک دوسرے کیں۔
______________________________________
فاطمہ بیگم ہال میں صوفے پر بیٹھ کر سوائیّاں کے مسالے کاٹ رہی تھیں تبھی اُن کا موبائل بجا، موبائل پر نام دیکھ کر اُن کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور فوراً اُنہونے کال اُٹھائی۔
" السَلاَمُ عَلَيكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ بیوٹیفل" عبدل چہک بولا۔
" وَعَلَيکم السَلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ مسٹر ہینڈسم" فاطمہ بیگم نے خوشدلی سے جواب دیا۔
"آپ کیسی ہے اور میرے ہیرو کیسے ہے؟"اُس نے خیریت دریافت کیں۔
"مَیں بھی الحمداللہ ٹھیک ہوں اور تمہارے ہیرو بھی ماشااللہ ٹھیک ہے" اُنہونے خیریت بتائیں۔
"اہا۔۔۔اہا آپ جو ساتھ ہے میرے ہیرو کے تو اُنہونے ٹھیک ہونا ہی ہیں" اُس نے شرارت سے کہا۔
"ہاہاہا!!! اچھا بتاؤ کل آرہے ہونا عید پر؟؟؟" فاطمہ بیگم نے سوال کیا۔
"نہیں" اُس نے اک لفظی جواب دیا۔
" کیوں" اُنہونے حیرت سے پوچھا کیوں کہ انھوں نے آج تک عبدل کے بغیر کبھی عید نہیں منائی تھی۔
"امّی ابھی دوسرے کیمپ کی تیاری کرنی ہیں۔ باسی عید کے دن بیلاپور جانا ہے وہاں کیمپ ہے پھر تیسرا کیمپ رامپور میں ہیں"وہ تفصیل سے اپنا شیڈول بتانے لگا۔
" یہ کیا بات ہوئی کم از کم عید کی ایک تعطیل تو دیتے" وہ اُداس ہوئی۔
"بیوٹیفل!!! ڈونٹ بی سیڈ، کوشش کرونگا آنے کی"اُسنے تسلّی دی۔
"ہاں! بیٹا ضرور کوشش کرنا آنے تمہیں معلوم ہے نہ مُجھے اور تمہارے ہیرو کو بلکل اچھا نہیں لگتا جب تم یہاں نہیں ہوتے"اُنہونے پیار سے کہا۔
"ہاں۔۔۔ معلوم ہیں مُجھے، مَیں بھی آپ کو بہت یاد کرتا ہوں۔۔۔ بیوٹیفل اب مَیں رکھتا ہو۔۔۔ڈاکٹر امتیاز بولا رہے ہیں" اُسے اشارے سے بُلایا گیا تو اُس نے کہا۔
" اللّٰہ حافظ، فی امان اللہ بیٹا"اُنہونے محبّت سے کہا۔
"اللہ حافظ،بیوٹیفل" اُس نے بھی اُسی انداز میں کہا،اور کال کٹ کی۔
میر رضا اور فاطمہ بیگم کا نکاح دونوں کے والدین کی باہمی رضامندی سے ہوا تھا۔ اُن کا ایک ہی بیٹا عبدل میر رضا ہیں۔عبدل بلکل میر رضا کی کاپی تھا بہت ہینڈسم!!! جہاں سے گزرتا لڑکیاں تو لڑکیاں، لڑکے بھی اُسے دیکھیں بنا نہیں رہتے وہ تھا ایسی وجیہہ پرسنالٹی کا مالک خوش شکل، چہرے پر کھڑی ناک، ہیزل گرین آنکھیں جو ایک بار دیکھے تو اُن آنکھوں میں کھو جائے پتلے ہونٹ گورا رنگ الغرض وہ واقعی بہت ہینڈسم تھا۔
______________________________________
دیکھا عید کا چاند تو مانگی یہ دُعا رب سے
دے دیں تیرا ساتھ عید کا تحفہ سمجھ کے
افطار کے بعد سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر چاند کے منتظر تھے۔ لوگوں کی نگاہیں چاند کو ڈھونڈ رہی تھی۔ چاند اُفق پر بادلوں کی اوٹ میں چھپا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بالاآخر " چاند نکل آیا " کا شور بلند ہوا۔ ہر طرف " چاند مبارک " کی گونج کا بول بالا تھا۔
ہر طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ مسجدیں سجادی گئی تھی۔ مارکیٹ میں رونق اپنے عروج پر تھی۔ہر کوئی اپنی نامکمّل تیاری کو مکمل کر رہا تھا۔وہ ، بھی اصفیا اور تبسم کے ہمراہ مارکیٹ آئی تھی۔کیونکہ تبسّم جہاں بھی جاتی ایرج کو ساتھ لیں کر جاتی۔
"اپیا آپ جب تک دوپٹہ دیکھئے مَیں اور ایرو تب تک کان کے جھمکے دیکھتے ہے" تبسّم نے اصفیا سے کہا تو اُسنے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ لوگ جھمکے کی دُکان کی طرف بڑھ رہے تھے تبھی اُس کا کسی سے زبردست تصادم ہوا۔
"آوچ!!!اندھے ہو کیا؟ دیکھائی نہیں دیتا کیا" اُس نے غصّے سے ماتھا مسلتے ہوئے سامنے دیکھا تو شرٹ اور ٹریک میں ملبوس مرد کو پایا جو آنکھوں پر عینک لگائے تھا۔
" سوری!!! محترمہ میں دیکھ نہیں سکا" اُس نے دھیمے انداز میں کہا۔
"دیکھینگے کیسے آنکھیں تو گھر چھوڑ کر آئے ہے نہ" وہ غصّے سے بولی۔
" مَیں اپنی آنکھیں ساتھ لےکر چلتا ہوں لگتا ہے آپ اپنا دِماغ اور آنکھیں دونوں گھر چھوڑ آئی ہے" وہ بھی اُسی کے انداز میں بولا۔
" آپ جیسے لڑکوں کو تو بس بہانہ چاہیے ہوتا ہے لڑکیوں سے ٹکرانے کا"وہ غصّے سے بولی۔
" دیکھیے محترمہ مَیں آپ سے سوری کے رہا ہوں نہ تو پھر آپ الزام کیسے لگا رہی ہے؟؟ اُسے اب غصہ آگیا۔
وہ دونوں کی لڑائی بڑھتا دیکھ کر تبسّم جلدی اُسے لے جانے لگی۔
" ایرو چلو یہاں سے، یہ جان کرکے تھوڑی ٹکرائے"وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اس لڑکے سے مخاطب ہوئی۔" اِس کی طرف سے مَیں آپ سے معافی مانگتی ہوں"اور پھر اُسے وہاں سے لے جانے لگی۔
" سیکھئے اپنی سہیلی سے کُچّھ ۔۔۔؟؟؟" وہ پیچھے سے زوردار آواز میں بولا جو با آسانی اُن لوگوں کے کانوں تک سُنائی دی۔
"اِس کی تو ابھی مَیں سیکھاتی ہوں۔۔۔!!!"وہ غصّے سے پلٹی تو وہ جا چکا تھا۔
"تم نے اسے سوری کیوں کیا؟ دیکھا نہیں کیسے بدتمیزی کر رہا تھا"وہ غصّے سے تبسّم سے بولی۔
"ایرو وہ جان کرکے نہیں ٹکرائے تھے،اور تُم نے بھی تو اُن سے کتنی بدتمیزی کی" تبسّم نے ڈانٹنے والے انداز میں اُس سے کہا۔
" تُم لوگ نے لیے جھمکے یاں ابھی تک یہی ہو؟" اصفیا نے اُن لوگ کو اب تک ایسے مارکیٹ کے درمیان کھڑا ہوا دیکھا تو غصّے سی بولی۔
اصفیا کو غصّے میں دیکھ کر وہ لوگ جلدی سے شاپ میں گھس گئیں ، مبادا اصفیا یہی مارکیٹ میں ڈانٹنے نہ لگ جائے۔ اصفیا کا اتنا روب اور دبدبہ تو تھا کہ دونوں اُس سے ڈرتی تھی اور محبّت اور عزت بھی اُتنی ہی کرتی تھی۔
______________________________________
وہ خراب موڈ کے ساتھ مارکیٹ میں تھا۔ تبھی اُس کا موبائل رینگ ہوا۔ موبائل پر نام دیکھ کر مُسکرا کر فون پک کیا۔
" السَلاَمُ عَلَيكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ، مسٹر کھڑوس " سامنے سے سلام آیا۔
"وَعَلَيكُم السَلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ, کیسا ہے؟" اِس نے جواب دے کر خیریت دریافت کی۔
" مَیں ٹھیک ہوں، لیکن تُو کُچّھ ٹھیک نہیں لگ رہا کیا ہوا؟ " اُس نے فکرمندی سے پوچھا۔
" کُچّھ نہیں یار!!! ایک لڑکی سے غلطی سے ٹکرایا تو باتیں سنا نے لگی"وُہ منہ بنا کے بولا۔
"ہاہاہا!! سچّی پروفیسر صاحب ایک لڑکی سے ٹکرائے، جو لڑکیوں سے دور رہتے تھے" وہ ہنس رہا تھا۔
" چپ کر تُو، بڑی ہنسی آ رہی ہے" وہ تپ کر بولا۔
"دیکھنا کہیں یہ ٹکراؤ زِندگی بھر کا ساتھ نہ بن جائے اور کہیں وہ تُجھے پسند نہ آجائے" اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا۔
" نہیں بابا وہ لڑکی سے نہیں ٹکرانا، کبھی اُس کے حوالے سے بھی نہیں سوچنا پوری جنگلی بلّی ہے وہ"
اُس نے ایک ہاتھ اُٹھا کر کانوں کو ہاتھ لگایا،اُدھر اُس کا قہقہہ گونجا۔
" اچھا بتا تُو کب آرہاہے؟ " اُس نے بات بدلی۔
"فجر سے پہلے آ جاؤنگا، لیکِن تُو نے امّی کو نہیں بتانا" اُس نے وارننگ والے انداز میں کہا۔
" ہاں ٹھیک ہے نہیں بتاتا، تو جلدی آجا پھر عید کی نماز ساتھ پڑھینگے" زان نے خوشی سے کہا۔
"ہاں ٹھیک ہیں چل اب رکھتا ہوں پیکنگ تو کرلوں" اُس نے اجازت طلب انداز میں کہا۔
" اللّٰہ حافظ " کہہ کر دونوں طرف سے کال کٹ ہوئی۔
______________________________________
غمو کو دِل سے بھلاؤکے عید کا دن ہے
خوشی سے بزم سجاؤ کے عید کا دن ہے
سرِ نماز جھکاؤ کے عید کا دن ہے
سبھی مُراد ہو پوری ہر سوالی کی
دُعا کے ہاتھ اٹھاؤ کے عید کا دن ہے
آج نئے اور خوبصورت دن کا آغاز ہوا۔ روز کی نسبت سے آج کا دن ایک الگ ہی خوشی اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ لکھنؤ کا موسم بہت خوشگوار تھا۔ چرند پرند خُدا کے تعریف میں مشغول ہوکر اپنے رزق کے لیے اِدھر اُدھر اُڑ رہے تھے۔ کیاں امیر، کیاں غریب، کیا بوڑھا، کیا جوان ،خوشیاں سب کےچہرے سے عیاں ہو رہی تھی۔ آج ہر شخص خوش تھا۔ کِیُونکہ عید اپنےساتھ بہت ساری خوشیاں لے کر آئی تھی۔سب لوگ عید گاہ میں نمازِ عید ادا کرنے کے بعد سب سے بلگیر ہوکر عید مبارک مِل رہے تھے۔ بڑے چھوٹوں کو عیدی دے رہے تھے، ہر طرف چہل پہل تھی۔
وہ بھی رامپور سے آگیا تھا لیکِن اپنے دوست زان کے گھر گیا تھا،اور نماز عید ادا کرکے زان کے ہمراہ اپنے گھر آیا۔
فاطمہ بیگم رضا صاحب کو سوئیاں دے رہی تھی تبھی اُن کی نظر دروازہ سے اندر آتے عبدل پر گئی،وہ دوڑتی ہوئی اُس کے پاس گئی۔
" عبدل...!!!" فاطمہ بیگم حیرانی سے بولی تو مسٹر رضا نے بھی دروازے پر نظر پھیری۔
"السَلاَمُ عَلَيكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ ، بیوٹیفل اینڈ مائی ہیرو عید مبارک کیسے ہے آپ دونوں؟؟؟" وہ مسٹر رضا سے بلگیر ہوتے ہوئے شوخی سے بولا۔
"وَعَلَيكُم السَلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ,تم کیسے آگئے؟؟؟ چھٹی تو نہیں ملی تھی نہ" فاطمہ بیگم حیرانی سے پوچھا۔
" کیسا لگا سرپرائز آنٹی؟" پیچھے سے زان اندر آتے ہوئے مُسکرا کر پوچھا۔
"ارے زان بیٹا تم بھی ساتھ آئے ہو، آؤ اندر، اور یہ سرپرائز تو بہت اچّھا دیا ہے" فاطمہ بیگم نے عبدل کی طرف دیکھ کر مُسکرا کر کہا۔
"السَلاَمُ عَلَيكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ، عید مبارک آنٹی اور انکل، کیسے آپ دونوں؟" زان نے سلام کے ساتھ ہی حال بھی دریافت کیا۔
"وَعَلَيكُم السَلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكاتُۃ، عید مبارک بیٹا، ہم الحمداللہ ٹھیک ہے تم کیسے ہو؟" فاطمہ بیگم نے مسکرا کر پوچھا۔
" مَیں بھی الحمدللہ ٹھیک ہوں" زان صوفے پر رضا صاحب کے ساتھ بیٹھتے ہوئےکہا۔
" ویسے بیٹا بتا دیتے تو مَیں آپ دونوں کی پسند کی اچّھی ڈیش بناتی" اُنہونے زان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
"بیوٹیفل! اگر آپ کو پہلے بتا دیتے تو بیوٹیفل کے چہرے پر یہ بیوٹیفل سی سمائل کیسے دیکھتے" عبدل نے ایک آنکھ دبا کر کہا تو سب کا قہقہہ گنجا۔
" ارے !! بیگم جاؤ سوئیاں لے کر آؤ بچّوں کے لئے " رضا صاحب فاطمہ بیگم سے مخاطب ہوئے۔
" آپ تینوں باتیں کرو، مَیں سیوائیّا لے کر آتی ہوں"کہہ کر فاطمہ بیگم باورچی خانے میں چلی گئی,اور تینوں اپنی باتوں میں لگ گئے۔
______________________________________
وہ رانی کلر کا لکھنوی کرتا اور پلازو پہنے جِس پر سارا کام باریک دھاگے سے کیا گیا تھا، زیب تن کیے صحن میں غصے سی اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی, کہ چنکی نے آکر اُس کو خبر دی۔
" باجی ،ایرج باجی بس ۱۵ منٹ میں آرہی ہے" چنکی نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو بحال کرکے اُسے بتایا۔
"لو چنکی شیرخوارما کھالو" اصفیا نے اُسے شیرخوارمادیا۔ جِس پر چنکی نے جلدی جلدی اپنا ہاتھ صاف کیا۔
" السَـلاَمُ عَلَيكُم اصفیا باجی عید مبارک، چڑیل آس پاس ہے کیا؟؟؟" ایرج نے چاروں اطراف نظر گھوما کر پوچھا۔
" وَعَلَيكُم السَلاَمُ ، عید مبارک ایرج آؤ اندر وہاں کیوں کھڑی ہو؟" ایرج کو دروازے کے باہر کھڑا دیکھ کر اصفیا بولی۔
" نہیں باجی کہیں وُہ چڑیل نہ آجائے" ایرج نے آنکھیں بڑی کرکے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔
"۔ چڑیل کی بچّی، وہی روکو تم ابھی بتاتی ہوں،تمہاری ہمّت کیسے ہوئی لیٹ آنے کی" تبسّم جو سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی ایرج کو دیکھ کر غصّے سے بولی۔
"نہیں بھئ مُجھے یہ گندی امّی نہیں چاہیے" ایرج جو تبسّم کے ہاتھ میں جھاڑو دیکھ چکی تھی بھاگتے ہوئے بولی،اب پورے گھر میں ایرج آگے آگے اور تبسّم اُس کے پیچھے پیچھے۔
"اتنا لیٹ کیوں کی تم، معلوم تھا نہ کہ ہمیں میلا جانا ہے" وہ دونوں دوڑتی دوڑتی تھک کراب صوفے پر بیٹھ گئی تھی تب تبسّم نے کہا۔
" یار، دادو کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ابھی اُنہیں دوائی دےکر آئی ہوں" وہ تفصیل بتانے لگی۔
" اب کیسی طبیعت ہے دادو؟" تبسّم نے فکرمندی سے پوچھا۔
" ابھی ٹھیک ہے دوائی کے زیراثر سو رہے ہیں" وہ نم آنکھوں سےبولی۔
ایرج کا موڈ سیڈ دیکھ کر تبسّم اُس کے لیے شرخورما اور بریانی لائی۔
"ایرو یہ لو کھاؤ، مَیں نے بنائی ہے"تبسّم اُس کے آگے تھال کرکے کہا۔
"یمّی، بہت اچّھا بنا ہے" ایرج نے کھاتے ہوئے دِل سے تعریف کی۔
اچانک دونوں کُچّھ یاد آیا تو دونوں نے ایک ساتھ عید مبارک کہا اور ہنس دی۔
تبسّم اور ایرج ایک ہی محلّے میں رہتے تھی۔ دونوں بچپن کی سہیلیاں تھی۔ وقت کے ساتھ یہ دوستی اور گہرائی ہوتی گئی۔ ایرج اپنے دادا کے ساتھ رہتی تھی۔ اُس کے والدین کا اُس کے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ اُس کی پرورش اُس کے دادا نے کی۔ ایرج ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھا کر گھر خرچ پورا کرتی، ایرج جتنی مستی خور تھی اتنی ہی حساس تھی۔
______________________________________
وہ نیلے اور سفید رنگ کا ہلکے ڈیزائنگ کا فراک اور چوڈیدار اور پیروں میں پائل پہنے پورے صدیقی ہاؤس میں بچّوں کے پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھی۔
" اسد اِدھر دو میرے جھمکے نمرہ یہاں لاؤ میرا کاجل" وہ دونوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے بول رہی تھی۔
" ہم نہیں دینگے ہمیں عیدی دیں یاں پھر میلا لے کر چلیں" وہ دونوں بضد تھے۔
" اِدھر آؤ دونوں میرے پاس ایک آئیڈیا ہے" اُس نے اُن کے کان میں کچھ کہا جِسے سن کر اُنہیں ہنسی آنے لگی،اور وہ دونوں اُس کام کو سرانجام دینے لگے۔
وہ تینوں جب اُس کے بیڈروم میں داخل ہوئے تو وہ آڑا ترچھاہو کر اپنے کنگ سائز بیڈ پر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھاکہ اچانک ہڑبڑا کے اُٹھا۔
"سیلاب ، سیلاب آیا" وہ ہڑبڑا کر اُٹھاتو تینوں قہقہہ لگا نے لگے اُسے پل بھر میں اُن کی شرارت سمجھ آئی۔" انو اب تم بچو مجھ سے یہ کیا طریقہ ہے جگانے کا" وہ پورے کمرے میں اُس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔
"زوبی ڈوبی تم عید کے دن بھی سو رہے تھے،عید کے دن کون سوتا ہے۔۔۔" وہ کبھی بیڈ پر تو کبھی صوفے پر چڑھ کے اُس سے بچنے کی کوشش کرتی۔
" چاچو ہمیں میلا لے کر چلیں" اسد اور نمرہ ایک زبان ہوکر بولے۔
"زوبی دیکھو نہ بچّوں کا کتنا من ہیں" وہ معصوم سے شکل بنائے اسد اور نمرہ کی طرف دیکھ کر بولی۔
" پلیز پلیز پلیز، چاچو" وہ دونوں اُس پر اُچھلنے لگے۔
" پلیز زوبی چلو نہ بہت مزاح آئے گا " وہ بھی بچّوں کے ساتھ منّت پر اُتر آئی۔
" اچھا ٹھیک ہے تم لوگ باہر گاڑی میں اِنتظار کرو مَیں بدل کر آیا" اُس نے کچھ سوچ کر ہامی بھری۔
"یاہو، " تینوں نے زور سے چہک کر کہا۔
اوروہ چاروں گاڑی میں بیٹھ کر میلا کے لیے روانہ ہو گئے۔
ظفر صدّیقی لکھنؤ کے نامور بزنسمین تھے۔اُن کے دو بیٹے تھے احمد اور محمد۔ دونوں کا نکاح اُن پھوپھو زاد سے ہوا تھا۔
احمد صاحب اور فاخرہ بیگم کے دو بچّے تھے۔ کبیر اور زبیر۔ کبیر کا نکاح احمد صاحب کے دوست کی بیٹی سمرہ سے ہوا تھا۔ زبیر پڑھائی سےفارغ ہوکر احمد صاحب کے ساتھ بزنس سنبھال رہا تھا۔
محمد صاحب اور آمینہ بیگم کے بھی دو بچّے تھے۔ بڑا بیٹا شایان اور سب سے چھوٹی انہباج۔ شایان کا نکاح سمرہ کی بہن سمائرا سے ہوا تھا۔ انہباج گھر کی سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب کی لاڈلی تھی۔ اِس لیے کوئی بھی اُس کی جلدی شادی کے حق میں نہیں تھا۔۔۔
جاری
Ye mera pahla novel hai bht narous hun ki aap sabko pasand aayega ya nhi...I hope aap sab ko pasand aaye aur jaha galti lage waha meri islah zaror karen.
Wattpad I'd 👉🏻 @shkhayaat
Insta I'd 👉🏻 @novelist_tabbo1
Follow me Wattpad n also insta☺️
Vote aur comments Krna pls na bhulein☺️
Anuradha
10-Sep-2022 03:43 PM
بہت خوبصورت😥😂😂
Reply
Milind salve
07-Jun-2022 11:23 AM
Good
Reply
Maria akram khan
06-Jun-2022 06:04 PM
Buth zabardast ❤️✨
Reply